آخر یہ کیا بات ہوئی آپ صلی اللہ علہ وسلم نے کیوں اتنے نکاح فرمائے
جن باتوں کو لے کر اسلام کو سب سے زیادہ بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اُن میں ایک یہ سوال بھی ہے۔
لہٰذا اس کا جواب ہیمیں پتہ ہونا ضروری ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب عالمِ شباب میں تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب پچیس ۲۵ سال تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سن رسیدہ بیوہ عورت حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نکاح فرمایا اور جب تک وہ زندہ رہیں دوسری شادی نہیں کی۔ پچاس سال کی عمر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیوی پر قناعت کی۔
اگر کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ پچیس ۲۵ سال ایک بیوہ عورت کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کرتا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف وجوہات کی بنا پر نکاح فرمائے۔
ایک مجمع سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آپ میں سے کون کون چالیس سالہ بیوہ عورت سے نکاح کرے گا تو سب کا جواب نہیں میں تھا۔
جنگِ اُحد میں ستر صحابہ شہید ہوئے، نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہو گئے۔ بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو بیوگان سے نکاح کرنے کو کہا اور صحابہ کو ترغیب دینے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ ، حضرت ام سلمہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مختلف اوقات میں نکاح فرمائے۔ آپکی دیکھا دیکھی صحابہ نے بھی بیوگان سے شادیاں کیں اور اس طرح بے سہارا گھرانے آباد ہو گئے۔
عربوں میں دستور تھا کے جو ان کا داماد بنتا اُس سے جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے۔ یوں ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نکاح فرمایا جو کے ابو سفیان کی بیٹی تھیں اور ابو سفیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور مسلمانوں کا شدید دشمن تھا۔ بعد ازاں ابو سفیان بھی مسلمان ہو گیا۔
حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہ کا والد قبیلہ معطلق کا سردار تھا ۔ اس قبیلے سے جہاد کے دوران سردار مارا گیا ۔ حضرت جویریہ ایک صحابی کے حضے آئیں۔ سب صحابہ نے مشورہ کر کے سردار کی بیٹی کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کروا دیا جس کے نتیجے میں ایک سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے۔
اسی طرح حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وجہ سے نجد میں اسلام پھیلا۔
حضرت زینب بنت حجش سے نکاح اس لئے کیاکہ منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا نہ سمجھا جائے۔ حضرت زینب کی شادی حضرت زید سے ہوئی جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے تھے مگر یہ شادی کامیاب نہ رہی اور طلاق ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب سے نکاح فرمایا۔
اس کے علاوہ اگر ہم مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے ایک امہات المومنین کے گھرانے اسلامی درس گاہیں تھیں۔ جیسے صحابہ کرام کے ذریعے ہمیں احادیث کا پتہ چلا اس طرح نسوانی مسائل کے احکامات امہات المومنین کے ذریعے دوسروں تک پہنچے۔
یہ سب نکات ہمارے لئے جاننا ضروری ہے تا کہ کوئی بد بخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ نہ کرسکے۔
جن باتوں کو لے کر اسلام کو سب سے زیادہ بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اُن میں ایک یہ سوال بھی ہے۔
لہٰذا اس کا جواب ہیمیں پتہ ہونا ضروری ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب عالمِ شباب میں تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب پچیس ۲۵ سال تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سن رسیدہ بیوہ عورت حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نکاح فرمایا اور جب تک وہ زندہ رہیں دوسری شادی نہیں کی۔ پچاس سال کی عمر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیوی پر قناعت کی۔
اگر کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ پچیس ۲۵ سال ایک بیوہ عورت کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کرتا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف وجوہات کی بنا پر نکاح فرمائے۔
ایک مجمع سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آپ میں سے کون کون چالیس سالہ بیوہ عورت سے نکاح کرے گا تو سب کا جواب نہیں میں تھا۔
جنگِ اُحد میں ستر صحابہ شہید ہوئے، نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہو گئے۔ بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو بیوگان سے نکاح کرنے کو کہا اور صحابہ کو ترغیب دینے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ ، حضرت ام سلمہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مختلف اوقات میں نکاح فرمائے۔ آپکی دیکھا دیکھی صحابہ نے بھی بیوگان سے شادیاں کیں اور اس طرح بے سہارا گھرانے آباد ہو گئے۔
عربوں میں دستور تھا کے جو ان کا داماد بنتا اُس سے جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے۔ یوں ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نکاح فرمایا جو کے ابو سفیان کی بیٹی تھیں اور ابو سفیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور مسلمانوں کا شدید دشمن تھا۔ بعد ازاں ابو سفیان بھی مسلمان ہو گیا۔
حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہ کا والد قبیلہ معطلق کا سردار تھا ۔ اس قبیلے سے جہاد کے دوران سردار مارا گیا ۔ حضرت جویریہ ایک صحابی کے حضے آئیں۔ سب صحابہ نے مشورہ کر کے سردار کی بیٹی کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کروا دیا جس کے نتیجے میں ایک سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے۔
اسی طرح حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وجہ سے نجد میں اسلام پھیلا۔
حضرت زینب بنت حجش سے نکاح اس لئے کیاکہ منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا نہ سمجھا جائے۔ حضرت زینب کی شادی حضرت زید سے ہوئی جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے تھے مگر یہ شادی کامیاب نہ رہی اور طلاق ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب سے نکاح فرمایا۔
اس کے علاوہ اگر ہم مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے ایک امہات المومنین کے گھرانے اسلامی درس گاہیں تھیں۔ جیسے صحابہ کرام کے ذریعے ہمیں احادیث کا پتہ چلا اس طرح نسوانی مسائل کے احکامات امہات المومنین کے ذریعے دوسروں تک پہنچے۔
یہ سب نکات ہمارے لئے جاننا ضروری ہے تا کہ کوئی بد بخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ نہ کرسکے۔
No comments:
Post a Comment